خالد احمد ۔۔۔ لگا نہ دیں غمِ نو سال پر لگان کہیں

غزل

وہ دیکھ لیں نہ مرے عجز کی اُٹھان کہیں
لگا نہ دیں غمِ نو سال پر لگان کہیں

تمام داغ ہوں ‘ جاؤں بھی تو کہاں جاؤں
نشانِ شکر کہیں‘ زخمِ امتنان کہیں

وہ میرے پاؤں تلے کی زمین کھینچ چکے
گھسیٹ لیں نہ وہ سر سے اب آسمان کہیں

کسے خبر کہ مہِ ہالۂ دُعا میں تھا
کہیں وہ چھیڑ نہ بیٹھیں یہ داستان کہیں

وہ جن کی نرم نوا ، دل کو چھید چھید گئی
مجھے ملیں تو وہ کم جان و کم زبان کہیں

شکیب ہو تو کہوں، جعفری کہے تو پڑھوں
جمے تو حلقۂ یارانِ رفتگان کہیں

وہ بیخ و بُن سے محلکے اُکھاڑ کر رکھ دیں
مگر سنیں تو وہ فریادِ بندگان کہیں

مجھے یقیں ہے کہ میں نے بھی دیکھ رکھے ہیں
یہ چشمِ نم، یہ گلابی، یہ آب دان کہیں

ابھی میں زندہ ہوں ماضی کے قریۂ گُل میں
گیا ہے؟ ہاتھ سے دامانِ پاستان کہیں

تمام رمز و اشارہ ہوں، استعارہ ہوں
مجھے غلط نہ سمجھ لیں یہ نوجوان کہیں

کہاں ہے آفتِ جانِ ندیمؔ و جانِ نسیم ؔ
کہیں بھی چین سے بیٹھا ہے وہ پٹھان کہیں

Related posts

Leave a Comment